مجھے تجھ سے بچھڑ جانے کا دکھ ہے
کلی کے کھل کے مرجھانے کا دکھ ہے
مجھے کل تو نے ٹھہرایا تھا لیکن
جہاں کو آج ٹھکرانے کا دکھ ہے
وفا پانے کی دل میں آرزو تھی
تماشا بن کے رہ جانے کا دکھ ہے

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


71
میں جہاں جاؤں تعاقب میں ہے رسوائی مری
مجھ کو محفل میں کیے رکھتی ہے تنہائی مری
مشورہ اپنے معالج کا رکھا بالائے طاق
آج گھائل کر گئی خود سے مسیحائی مری
ڈھونڈتا ہوں نقص خالق کی ہر اک تخلیق میں
باعثِ شرمندگی ہے پھر تو زیبائی مری

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
31
گُلوں کی پالکی میں ہے بہاروں کی وہ بیٹی ہے
چہِیتی چاند کی روشن سِتاروں کی وہ بیٹی ہے
ہماری بیٹیاں سب کے لیئے تکرِیم والی ہیں
کِسی بھی ایک کی عِفّت سو چاروں کی وُہ بیٹی ہے
وُہ چلتی ہے تو راہوں میں سُریلے ساز بجتے ہیں
کِسی اُجلی ندی کے شوخ دھاروں کی وہ بیٹی ہے

ہزج مثمن ثالم


0
55
بیتے لمحے کل کی باتیں یاد آئیں
وہ رنگوں کی سب برساتیں یاد آئیں
دن دیکھا تو چہرہ تیرا یاد آیا
رات کے دیکھے زلف کی راتیں یاد آئیں
بیٹا ایم اے کر کے گھر میں بیٹھ گیا
اپنے وقت کی چار جماعتیں یاد آئیں

بحرِ ہندی/ متقارب مسدس مضاعف


0
1
387